Islahih_writer

Add To collaction

تیرہ پانی چودہ گوڑ تب تاکا ہودا کی اور

گنا  سے گڑ بننے کاعمل اور گنا کی کٹائی کے بارے میں گزشتہ کالموں میں بتا یا گیا ۔گزشتہ  کالم پڑھ کر ایک قاری نے بتایا کہ رس اور گڑ یوں ہی نہیں مل جاتا ہے ، اس کیلئے پاپڑ بیلنے پڑتےہیں ۔ انہوں نے گنےاور گڑ سے متعلق  یہ کہاوت بھی پیش کی   : ’’تیرہ پانی چودہ گوڑ تب تاکا ہودا( حوض) کی اور۔‘‘   یعنی گنے کی تیرہ مرتبہ سنچائی کیجئے،  چودہ مرتبہ گوڑائی کیجئے ، اس کے بعد ہی گڑ کے حوض کی طرف دیکھئے ۔ مطلب واضح ہے کہ اتنی محنت کے بعد ہی  اچھے گڑ کی امید کیجئے ۔اسی صورت میں گڑ کا حوض بھرے گا ۔  
 فروری اور مارچ کے مہینے میں عام طور پر گنے کی بوائی ہوتی ہے۔کچھ لو گ اپریل میں بھی بوتےہیں۔ مٹر اور سرسوں کا کھیت خالی ہونے کے بعد اس میں گنا بویا جاتا ہے۔پرانے لوگ بتاتےہیں کہ پہلے گنےکی بوائی کیلئے زیادہ محنت کی جاتی تھی ، دوڑ بھاگ ہوتی تھی ، گنے کی بوائی سے ایک دن پہلے محلے والے سر جوڑ کر بیٹھتے تھے ،عام طور پر سورج ڈوبنے کے بعد لوگ چارپائی پر محفل سجاتے تھے۔ گنے کی بوائی کو آسان بنانے کیلئے مشورہ ہوتا تھا ، پھر اسی کی بنیاد پر دوسرے دن صبح صبح بوائی ہوتی تھی ۔ بوائی میں پورے محلے  والے شریک ہوتے تھے۔ غربت تھی ،مزدوری بچانے کیلئےلوگ ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے ۔ ہاں جس کے گھر بوائی ہوتی اسے  بہترین ناشتے اور کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑ تا تھا۔
 بوائی کا سب سے پہلا مرحلہ’ بینگا‘  ( بیج) کی تلاش ہے۔ سب کی خواہش ہوتی تھی کہ اچھے سے اچھا گنا بویا جائے۔ ترجیحی بنیا د پر بوائی کیلئے ایسا گنا تلاش کیا جاتاتھا جس کا گڑ سفید ہوتا تھا ، دانے دار ہوتا تھا اوربھیلی بھی اچھی ہوتی تھی۔ ایسے بیج کی تلاش میں لوگ پیدل کئی کئی کلومیٹر چلتے تھے ،گا ؤں گاؤں جاتے تھے ، کسانوں سے ملتے تھے، چھان بین کرتے تھے ، پوری طرح اطمینان کے بعد ہی  اپنی پسند کا گنا لے کر لوٹتے تھے ، پیدل سر پہ گنے کا بوجھ لاد کر لاتے تھے۔
  گناگھر لانے کے بعد بوائی کیلئے اس کے ٹکڑے بنائے جاتے تھے ۔ایک ہاتھ یا ا س سے تھوڑا بڑا ٹکڑا بنا یا جاتا تھا۔ یہ کام کھیت میں کیا جاتا تھا اور کچھ لوگ گھر ہی پر کر لیتے تھے۔ گنا کاٹتے وقت گیڑیا ں نکلتی تھیں۔ اس پر بچوں کا حق ہوتا تھا ، اس میں صرف اپنے گھر کے نہیں بلکہ محلے پڑوس کے بچوں کا بھی حصہ لگایا جاتاتھا ، اسی لئے بچوں کو جب پتہ چلتا تھا کہ کسی کے کھیت میں گنا بو یا جارہا ہے تو   وہ فورا ً وہاں اپنا حق لینے پہنچ جاتے تھے ۔ جہاں گنا کٹتاتھا ، اس جگہ کو گھیر لیتے تھے، پھر وہاں سے بچے اپنے کرتے کے دامن ، کاغذ  ، پلاسٹک  یا  اپنی ٹوپی وغیرہ میں گیڑیاں لے کر نکلتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ گنا کاٹنے کے دوران بچے نہیں آتے تھےتو بڑے بوڑھے گیڑیاں سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے ۔گھر جاتے وقت  راستے میں  بچوں کا جوبھی گروپ ملتا تھا ، اس سے یہ کہتے ہوئے گیڑی دی جاتی تھی :’’ لے لالڑکو گیڑی  لےلا .. .۔‘‘( بچو ! لو گیڑی لے لو )اس پر بچے انکار نہیں کرتے تھے ، خوشی خوشی گیڑی لے لیتے تھے۔
گنےکا ٹکڑے بنانے کے بعد اسے زمین میں دبایا جاتا ہے ۔ اس ٹکرےکو پوروانچل میں’ پتا ڑ‘ کہتےہیں۔ پہلے  اسےنم مٹی میں  دبا یا جاتا تھا ، اب بھر پورسنچائی کے بعد ہی پتاڑ کو زمین کے حوالے کیا جاتا ہے۔  پتا ڑ سے’ انکھو ا‘ نکلنے تک کسان بے چین رہتے ہیں۔ بار بار اپنے کھیت میں جا کر اسے دیکھتے ہیں۔کھیت سےگھر لوٹتے وقت راستے میں جو بھی ملتا ہے ، پہلاسوال یہی پوچھتا ہے:’’ کا ہو اوکھیا جام گئی۔‘‘ ( کیا بھائی!گنا جام گیا ہے )
  چلئے اس دور میں چلتے ہیں ، جب نم مٹی میں پتاڑ یا گنے کا ٹکڑا دبایا جاتاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گنے کی بوائی بیل ہی سے کی جاتی تھی۔ اس دور میں سنچائی کے ذرائع نہیں تھے ، ٹیوب ویل بعد میں آئے  ۔ اس وقت کنویں ہی آب پاشی کا واحدذریعہ تھے،اسی سے سنچائی ہوتی تھی ، ا سی لئے جتائی زیادہ کی جاتی تھی ،با ربا ر کی جاتی تھی،  جب مٹی بھر بھری ہوجاتی  تو اس میں اوپر سے تھوڑا بہت پانی چھڑک دیا جاتا تھا ، اتنا کہ مٹی پوری طرح سے نم ہوجاتی تھی اور اس پر بیل کے ساتھ چلنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی، پھسلن نہیں ہوتی تھی ۔ پھر جس دن گنے کی بوائی ہوتی تھی ، بیل کے ہل میں  ایک مخصوص لوہا لگایا جا تا تھا جسے پوروانچل میں’ کھپیچ کہا جاتاتھا۔ اس کی مدد سے بیل کھیت میں نالی نماں نشان بناتے تھے ، اس میں پیچھے سے لوگ گنے کا ٹکڑا رکھتے جاتے تھے ۔ بیل دوسرا نشان بنانے کیلئے گزرتے توپہلا نشان ڈھک جاتا تھا ۔ یعنی دوسرے نشان کی مٹی پہلے نشان میں چلی جاتی تھی ۔ اس طرح ایک کے بعد ایک نشان بنتا تھا اور اس میں پتاڑڈالا جاتا تھا ۔جب اس طرح پورے کھیت میں گنے کی بوائی ہوجاتی تھی ،تب ایک مرتبہ بانس کے ٹکڑے سے جوڑے گئے ’ ہینگا ‘سے پورا کھیت برا برکردیا جاتاتھا ، ہینگا باندھ کر بیل کی جوڑی پورے کھیت میں گھومتی تھی۔ پھر کھیت میں  بھیڑیں بٹھائی جاتی تھیں ، یہ رات بھر کھیت میں بیٹھی رہتی تھیں ۔ لوگ بتاتےہیں کہ بھیڑوں کے ایک رات کھیت میں بیٹھنے سے اچھی خاصی کھاد مل جاتی تھی۔اُن کی گرمی سے گنا جلد ی اگتا تھا۔ا س کے بدلے میں گڈریا کو کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا ، معاہدے کے تحت غلہ وغیرہ دیا جاتاتھا ۔ گنا اگانے کا یہ روایتی طریقہ آج بھی لوگ اپناتےہیں مگر اب بھیڑیں اور گڈریا مشکل سے ملتے  ہیں۔  یہ عمل مکمل ہونے کے بعد گنا اگنے کا انتظار کیا جاتا تھا ۔ انکھوا نکلنے کے بعد اس کی سنچائی کی جاتی تھی ۔ سنچائی کے چار پانچ دن کے بعدگڑائی ہوتی تھی۔

   11
7 Comments

Vinita varma

24-Jan-2022 04:28 PM

Good

Reply

Shaqeel

11-Jan-2022 08:58 PM

Good

Reply

Islahih_writer

13-Jan-2022 12:47 AM

شکریہ

Reply

Abraham

08-Jan-2022 11:55 AM

نئے رنگ بہُت خوب

Reply

Islahih_writer

13-Jan-2022 12:48 AM

شکریہ

Reply